21-May-2022 ادھوری خواہش۔
ادھوری خواہش
یہ وسط جون کے دن تھے جب سورج نے جیسے کراچی والوں پہ قہر برسانے کا عہد کر لیا تھا۔وہ بھی گھر کی صفائی سے فراغت پاتے ہی اس شدید گرمی میں بھی چاۓ کی طلب لیے کچن میں چلی آئی چولہے پہ چائے کا پانی رکھتے چولہے سے کچھ اوپر لگے چھوٹے سے کیبنٹ میں ہاتھ بڑھا کر چینی اور پتی کا ڈبہ نکالا چینی کا ڑھکن کھولتے ہی ڈبہ خالی ملا اسے تلخی سے مسکراتے ڈبہ واپس کبینٹ میں رکھا اور ابلتےپانی میں پتی ڈال کر اسے چھانا اور برائے نام دوھ قہوے میں ڈال اور چائے کے استعمال شدہ برتن سنک تلے دھوۓ وہ ہاتھ کے ہاتھ سارے کام نبٹانے کی عادی تھی یہی وجہ تھی کہ اس کا اکثر وقت گھر کے کاموں کی نزر ہو جاتا تھا۔ہاتھ میں چائے کا کپ تھامے وہ اسٹور روم میں چلی آئی تھی ۔ دو کمرے چھوٹا سا صحن اور یہ اسٹور روم یہی اس کا اور ملک راشد کا کل اثاثہ تھا ۔بچوں کے آنے میں ابھی قدرے وقت باقی تھا۔کھانے کی فکر تو اسے تھی نہیں ابھی کافی وقت باقی تھا سو اسنے بے فکری سے بوسیدہ سی الماری میں رکھی کچھ کتابوں میں سے ایک کتاب اٹھائ جس پہ ہلکی سی گرد جمی تھی یہ کتابیں اسکی شادی سے پہلے کی تھیں جسے اسنے بڑا سنبھال رکھا تھا۔چاۓ میں کے نام پہ پھیکا اور کڑوا آمیزہ حلق میں اتارتے وہ کتاب کے بوسیدہ اوراق کھولے ماضی کے دھندلکوں میں جا کھوئی تھی ۔ صالحہ کو پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا مگر افسوس ماں کی وفات کے بعد چھوٹے بہن بھائیوں کی پرورش اور گھر کی ساری زمیداری اسکے ناتواں کاندھوں پہ آگئی تھی مجبوراً اسے پڑھائی کو خیر آباد کہنا پڑا تھا ۔مگر اسکی آگے پڑھنے کی خواہش کبھی ختم نہیں ہوئی۔ لہٰذا اسنے شادی کے بعد اپنی پڑھائی مکمل کرنے کا ارادہ کیا۔مگر جب بیاہ کر راشد کے گھر قدم رکھے تو بیمار ساس اور راشد کی معقول تنخواہ میں اسے اپنی امید کے دیے بجھتے ہوئے دیکھائی دیے اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کی پیدائش اور بڑھتی مہنگائی میں اسکی یہ خواہش جیسے خواب ہی بن گئی "صالحہ “راشد کی گرجدار آواز اسے جنھوڑتے ماض سے حال میں لائی تھی ہمیشہ کی طرح آج بھی گھر میں قدم رکھتے ہی راشد نے پھر کسی نئے خرچے پر واویلا کرنا تھا ایسے میں اسکی ادھوری خواہش کی پوٹلی ہمیشہ کی طرح آج بھی انھیں بوسیدہ کتابوں کے درمیان ہی پڑی رہ گئی تھی
Reyaan
28-May-2022 10:03 AM
👌👏
Reply
Saba Rahman
24-May-2022 12:11 AM
Nyc
Reply
Arshik
23-May-2022 01:49 PM
Good👍👍
Reply